حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

  • Admin
  • Sep 23, 2021

حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

تعارف :

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ  عنہ کا نام ہونٹوں پر آتا ہے تو دِیدو دل میں خوشبو کے چراغ جھِلملانے لگتے ہیں اور پلکیں اِس عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احترام میں جھک جاتی ہیں۔

عشق رسول ﷺ اورفنا فی الر سول کی بات ہوگی توحضرت اویس قر نی ؒ کا تذکرہ لازمی ہوگا۔تاریخِ اسلام میں علمائے کرام نے حضرت اویس قرنی ؒکے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے آپ ؓکی نیکی ، تقویٰ و پرہیزگاری اور زہد کے بہت سے واقعات تحریر کیے ہیں ، حضرت اویس قرنی ؒ کا اپنی ماں کی خد مت، اُن کی اطاعت و محبت میں فریفتہ رہنا اورخصوصاََماں کی محبت  میں مشغول رہنا قابل ِ رشک ہے، اسی بے مایہ عشق اور محبت ِمادر اور اُن کی خدمت میں مستغرق رہنے نے آپؓ کو عاشق فنا سے عاشق بقاء بنادیا۔ آپؓ کا شمار اللہ اور اس کے رسولﷺ کے مخلص بندوں میں ہوتا ہے۔

  آپؓ کی کنیت ابو عمرو اور مکمل نام و نسب اویس بن عامر بن جزء بن مالک قرنی، مرادی، یمنی ہے۔   

آپؓ کا شمار کبار تابعین  اور نیک اولیاء میں ہوتا ہے۔آپ ؓنے عہد نبوی  پایا ہے۔ لیکن آپؓ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہیں ہوسکی۔

 حافظ ابو نعیم  رحمۃ اللہ  نے  "حلية الأولياء "میں  اصبغ بن زید سے  نقل کیا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی والدہ کا خیال  رکھنے کی وجہ سے سفر نہیں کر سکتے تھے۔  لہٰذا حضرت اویس قرنی رضی اللہ  عنہ تابعی ہیں، صحابی نہیں ہیں۔

ولادت : 

آپؓ کی پیدائش و پرورش یمن ہی میں ہوئی ہے۔

 حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ  عنہ "قرن" جو یمن کا شہر ہے وہاں کے رہنے والے ہیں ۔یہ ایک بستی کا نام ہے جو یمن میں واقع ہے۔یہ ایک شخص "قرن بن رومان بن نامیہ بن مراد "کے نام منسوب تھی، جو حضرت اویس قرنی  رضی اللہ عنہ کے اجداد میں سے تھا۔

حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ اپنی ضعیف والدہ کو تنہا چھوڑ کر طویل سفر اختیار نہیں کر سکتے تھے اور پھر یہ خیال بھی دامن گیر تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچ کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلووں کی تاب بھی لاسکوں گا کہ نہیں۔ آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی حضرت  اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ  عنہ سے بے حد محبت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان تھا کہ "قرن" میں اویس نام کا ایک شخص ہے، جو روزِ محشر بنو ربیعہ اور بنو مضر کی بھیڑوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری اُمت کے لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس غلام سے کتنی محبت فرماتے ہوں گے۔

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 

ان خير التابعين رجلٌ يقال لہ اويس ولہ والدة، وکان بہ بياض. فمروه فليستغفرلکم :

مسلم، الصحيح، 4 : 1968، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 22542

حاکم، المستدرک، 3 : 456، رقم : 35720

حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی دندان شکنی :

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے اگرچہ بظاہر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضری نہیں دی تھی تاہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں فنائیت کے مقام پر فائز تھے۔ ایک روایت ہے کہ غزوہ احد میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک کی شہادت کی خبر ملی تو آپ ؓنے بھی اپنا ایک دانت توڑ دیا پھر خیال گذرا کہ پتہ نہیں آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کون سا دانت مبارک شہید ہوا ہوگا؟ لٰہذا ایک ایک کر کے اپنے سارے دانت توڑ لئے۔

اس پر بعض اہل علم کو اعتراض ہے کہ اسلام خود اذیتی کی کب اجازت دیتا ہے؟ چونکہ دانت ،اللہ  تعالیٰ کی نعمت ہیں، اس لئے انہیں توڑ دینا کفران ِنعمت ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ صحابہ کرام سے ایسا کوئی فعل سرزد نہیں ہوا۔ یہ اعتراض دراصل انسانی کیفیت اور ان کے احکام کی طرف توجہ نہ دینے کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ انسان کی دو کیفیتیں ہیں۔ایک  حالت صحواور دوسری حالت سکر۔

حالت صحو : 

ہوشیاری اور بیداری کی کیفیت، اس میں حواس خمسہ اور عقل مکمل طور پر کام کررہی ہوتی ہے اس حالت میں شرع کے تمام احکام اس پر لاگو ہوتے ہیں۔

حالت سکر :

یہ مستی اور بے خودی کی کیفیت ہے۔ اس میں انسان از خود رفتہ ہوجاتا ہے۔ اُسے تن بدن کا ہوش نہیں رہتا، جس طرح کسی جنگ میں ایک تیر شیر خدا حضرت علی ابن ابی طالب  رضی اللہ عنہ کے جسم میں پیوست ہو گیا۔ تکلیف کی شدت کے پیش نظر تیر نکالنا دشوار ہوگیا۔ لیکن یہی تیر نماز کی حالت میں بآسانی نکال لیا گیا اور آپ ؓنے جنبش تک نہ کی۔ وجہ ظاہر ہے کہ محبوبِ حقیقی کی محبت میں تن بدن کا ہوش نہیں رہتا تھا۔

ایسی مستی کی کیفیات میں انسان مرفوع القلم ہوتا ہے۔ لہٰذا اس پر حالت ِصحو والے احکام نافذ نہیں ہوسکتے۔

مغلوب الحال وفانی الصفت معذور باشد ایں چنیں کسے راعاصی نہ تو ان گفت

یعنی مغلوب الحال اور فانی صفت لوگ معذور شمار ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کو خطاکار نہیں کہا جاسکتا۔

اللہ تعالی اپنے پیارے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام سے اس حد تک محبت فرماتا ہے کہ جس کی نظیر نہيں ملتی اور ان کو عزیز رکھتا ہے کہ جو اس کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور ان کا درجہ و مرتبہ تو اس کی بارگاہ اقدس میں بہت بلند ہے جو حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں ایسے ہی عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے بعد سرفہرست نام حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔

 حاکم نے حضرت ابن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ :

تابعین میں میرا بہترین دوست اویس قرنی (رضی اللہ تعالی عنہ) ہے۔

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس قدر مستور الحال تھے کہ لوگ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیوانہ سمجھتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ سادگی اور فقر کا اعلی نمونہ تھے۔

 روایات میں آتا ہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کوڑے کے ڈھیر سے پھٹے پرانے کپڑوں کے چیتھڑے اٹھا کر لاتے اور ان کو دھو کر جوڑتے اور سی کر خرقہ بنا لیتے اللہ تعالی کے نزدیک آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ لباس بہت ہی پسندیدہ تھا۔ ساری زندگی دنیا کی کسی بھی چيز سے محبت نہ کی اللہ تعالے اور اس کے حبیب علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت میں مستغرق رہے ایسی ہی بلند مرتبہ ہستیوں کی فضیلت احادیث مبارکہ میں بھی بیان ہوئی ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالے عنہ فرماتے ہيں کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ :

بہت سے لوگ (ایسے) ہیں جو بے حد پریشان غبار آلود ہيں اور جن کو دروازے سے دھکے دے کر نکالا جاتا ہے اگر وہ (کسی بات پر) اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالی ان کی قسم کو سچا اور پورا کر دے۔

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت و مرتبہ کی مثال اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ خود حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زبانِ اطہر سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا مقام جو اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہے بیان فرمایا۔ 

مسلم شریف کی حدیث پاک ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

اہل یمن سے ایک شخص تمہارے پاس آئے گا جسے اویس (رضی اللہ تعالی عنہ) کہا جاتا ہے اور یمن میں اس کی والدہ کے علاوہ اس کا کوئی رشتہ دار نہیں اور والدہ کی خدمت اُسے یہاں آنے سے روکے ہوئے ہے اُسے برص کی بیماری ہے جس کے لیے اُس نے اللہ تعالی سے دعا کی۔ اللہ تعالی نے اُسے دور کر دیا صرف ایک دینار یا درہم کی مقدار باقی ہے جس شخص کو تم میں سے وہ ملے تو اُس سے کہے کہ وہ تم سب کی مغفرت کے لیے اللہ تعالی سے دعا کرے اور مغفرت چاہے۔🕋

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کا مرتبہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس قدر مقبول ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں اللہ تعالی سے بخشش کی دعا فرمائی تو اللہ تعالی نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک کثیر تعداد کو بخش دیا۔

 روایات میں آتا ہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ انتہائی متقی اور پرہیز گار تھے۔ تقویٰ کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ تین روز تک کچھ بھی نہ کھایا پیا راستے میں چلے جا رہے تھے کہ زمین پر ایک ٹکڑا پڑا ہوا دکھائی دیا کھانے کے لیے اسے اٹھایا اور چاہتے تھے کہ کھائيں ،لیکن دل میں خیال آیا کہ کہيں حرام نہ ہو چنانچہ اُسی وقت پھینک دیا اور اپنی راہ لی۔

اللہ کے مقبول بندے وہی ہوتے ہيں جو اللہ تعالے کے دوست ہوتے ہيں۔ اللہ تعالے ان کو دوست رکھتا ہے جو اس کے پیارے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں اور حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ اس شرط پر پورے اترتے ہيں۔

 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:

اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو نہ نبی ہيں نہ شہید پھر بھی انبیاء اور شہداء قیامت کے دن اُن کے مرتبہ پر رشک کریں گے جو انہيں اللہ تعالی کے یہاں ملے گا ۔لوگوں نے کہا:

 یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ کون لوگ ہوں گے؟ حضور علیہ الصلوۃ ولسلام نے فرمایا: کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو آپس میں ایک دوسرے کے رشتہ دار تھے اور نہ آپس میں مالی لین دین کرتے تھے بلکہ صرف اللہ کے دین کی بنیاد پر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے، بخدا اُن کے چہرے نورانی ہوں گے اور اُن کے چاروں طرف نور ہی نور ہو گا انہیں کوئی خوف نہ ہو گا اس وقت جب کہ لوگ خوف میں مبتلا ہوں گے اور نہ کوئی غم ہو گا اُس وقت جب کہ لوگ غم میں مبتلا ہوں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  نے یہ آیت مبارک پڑھی :

الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون ۔

عشق مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا وہ مطہر و منزہ جذبہ جو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کے قلبِ اطہر میں موجزن تھا، تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی آپ ؓمحبت و عشق کے جس عظیم مقام و مرتبہ پر فائز تھے اُسے دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے بھی رشک کیا۔ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے باطنی فیضان سے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کا سینہ پاک منور و تاباں تھا ۔اس باطنی فیضان کے نور سے آپ ؓنے حقیقتِ محمدی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو پا لیا تھا وہ اسرار ِالہٰی جسے ہر کوئی نہیں پا سکتا اُسے آپ ؓنے مدینہ طیبہ سے دُور یمن میں بیٹھ کر پا لیا اور پھر مخلوق ِخدا سے کنارہ کشی اس لیے اختیار کر لی کہ لوگوں پر آپؓ کا مقام و مرتبہ ظاہر نہ ہو جائے۔

حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی آپ ؓپر خصوصی نگاہ کرم تھی۔ آپؓ کا شمار سرکار مدینہ علیہ الصلوۃ والسلام کے دوستوں میں ہوتا ہے آپؓ کے حالات کی کیفیت سے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کو آگاہی حاصل تھی۔ رسول کریم علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق و محبت کی تڑپ و لگن جو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں موجود تھی اس کا علم سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو بخوبی تھا۔ حضور سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے۔ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ نے محبت سے عشق تک کی تمام منازل کو طے کر رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؓ عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سرخیل ہيں اور اس راہ پر چلنے والوں کے ایک عظیم قائد و رہنما ہيں۔💕

جس دیوانگی اور وارفتگی کے جذبے کے ساتھ آپ ؓنے رسول کریم علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق کیا وہ جذبہ عشق کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا ہوا تھا جس نے آپؓ کے اور حضور سرکار مدینہ علیہ الصلوۃ والسلام کے مابین ایک مضبوط باطنی و روحانی تعلق قائم کر دیا۔ یہ پروردگار عالم کا آپؓ پر خصوصی فضل و کرم تھا کہ اس نے اپنے پیارے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت و عشق کی دولت سے آپؓ کے قلب ِپاک کو مالا مال کر دیا تھا۔

دندان شکنی کی حقیقت :

تاجدار یمن حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ میں" کتاب شرعۃ الاسلام "کے حوالے سے ایک اور واقعہ درج کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دانت آپؓ نے خود نہیں توڑے بلکہ خودبخود ٹوٹ گئے۔ واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ ایک بزرگ کے مرید خانقاہ کے باہر حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی دندان شکنی کے متعلق گفتگو کررہے تھے کچھ دیر بعد بزرگ موصوف نے اپنے مریدوں کو اندر بلاکر فرمایا۔ تم جب خواجہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں گفتگو کررہے تھے اس وقت حضرت خواجہ  اویس قرنی رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے میں نے اس واقعہ کی آپؓ سے تصدیق چاہی تو آپ ؓنے فرمایا میرے دانت ہاتھ لگائے بغیر ٹوٹ گئے تھے۔ مصنف کتاب علامہ محمود بن احمد اس پر لکھتے ہیں کہ یہ اعجاز تھا اُس تعلق ِخاص اور عشقِ کامل کا جو حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تھا ۔جب دونوں میں محبت کمال درجہ پر پہنچتی ہے تومُحب پر محبوب کی تمام کیفیات طاری ہوجاتی ہیں۔ ایسے حالات عاشقانِ صادق پر اکثر ظہور پذیر ہوتے رہے ہیں۔

حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ جلیل القدر تابعین اور چالیس پیشواؤں میں سے ہوئے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ "اویس احسان و مہربانی کے اعتبار سے بہترین تابعین میں سے ہے"۔ اور جس کی تعریف رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما دیں اس کی تعریف دوسرا کوئی کیا کر سکتا ہے۔ بعض اوقات یمن کی جانب روئے مبارک کر کے حضور فرمایا کرتے تھے کہ " میں یمن کی جانب سے رحمت کی ہوا آتی ہوئی پاتا ہوں"۔

حضور اکرم نے فرمایا کہ میری امت میں ایک ایسا شخص ہے جس کی شفاعت سے قبیلہ ربیعہ و مضر کی بھیڑوں کے بالوں کے برابر گناہگاروں کو بخش دیا جائے گا۔(ربیعہ و مضر دو قبیلے ہیں جن میں بکثرت بھیڑیں پائی جاتی تھیں) اور جب صحابہ کرام نے حضور سے پوچھا کہ وہ شخص کون ہے اور کہاں مقیم ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کا ایک بندہ ہے۔ پھر صحابہ کے اصرار کے بعد فرمایا کہ وہ اویس قرنی ہے۔

چشم باطن سے زیارت ہوئی:-

 جب صحابہ نے پوچھا کہ کیا وہ کبھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کبھی نہیں، لیکن چشم ظاہری کے بجائے چشم باطنی سے اس کو میرے دیدار کی سعادت حاصل ہے۔ اور مجھ تک نہ پہنچنے کی دو وجوہ ہیں۔ اول غلبہ حال، دوم تعظیم شریعت۔ کیونکہ ان کی والدہ مؤمنہ بھی ہیں اور اور ضعیف و نابینا بھی۔ اور اویس شتربانی کے ذریعہ سے ان کے لیے معاش حاصل کرتا ہے۔ پھر جب صحابہ نے پوچھا کہ کیا ہم ان سے شرف نیاز حاصل کر سکتے ہیں تو حضور ﷺنے فرمایا کہ نہیں۔ البتہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے ان کی ملاقات ہو گی اور ان کی شناخت یہ ہے کہ پورے جسم پر بال ہیں اور ہتھیلی کے بائیں پہلو پر ایک درہم کے برابر سفید رنگ کا داغ ہے لیکن وہ برص کا داغ نہیں۔ لہٰذا جب ان سے ملاقات ہو تو میرا سلام پہنچانے کے بعد میری امت کے لیے دعا کرنے کا پیغام بھی دینا۔ پھر جب صحابہ نے عرض کیا کہ آپ کے پیراہن کا حقدار کون ہے تو فرمایا اویس قرنی۔

مقام تابعی اور اشتیاق صحابہ :- 

دور خلافت راشدہ میں جب حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نے اہلِ یمن سے ان کا پتا معلوم کیا تو کسی نے کہا کہ میں ان سے پوری طرح تو واقف نہیں البتہ ایک دیوانہ آبادی سے دور عرفہ کی وادی میں اونٹ چرایا کرتا ہے اور خشک روٹی اس کی غذا ہے۔ لوگوں کو ہنستا ہوا دیکھ کر خود روتا ہے اور روتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر خود ہنستا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر اور حضرت علی   رضی اللہ عنہما جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت اویس ؓنماز میں مشغول ہیں اور ملائکہ ان کے اونٹ چرا رہے ہیں۔ فراغت نماز کے بعد جب ان کا نام دریافت کیا تو جواب دیا کہ عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ۔ حضرت عمر ؓنے فرمایا کہ اپنا اصلی نام بتائیے۔ آپ ؓنے جواب دیا کہ اویس۔ پھر حضرت عمر ؓنے فرمایا اپنا ہاتھ دکھائیے۔ انہوں نے جب ہاتھ دکھایا تو حضور اکرم ﷺکی بیان کردہ نشانی دیکھ کر حضرت عمر ؓنے دست بوسی کی اور حضور ﷺکا لباس مبارک پیش کرتے ہوئے سلام پہنچا کر امت ِمحمدی ﷺکے حق میں دعا کرنے کا پیغام بھی دیا۔ یہ سن کر اویس قرنی ؓنے عرض کیا کہ آپ خوب اچھی طرح دیکھ بھال فرما لیں شاید وہ کوئی دوسرا فرد ہو جس کے متعلق حضور ﷺنے نشان دہی فرمائی ہے۔ حضرت عمر ؓنے فرمایا کہ جس نشانی کی نشان دہی فرمائی ہے وہ آپ ؓمیں موجود ہے۔ یہ سن کر اویس قرنیؓ نے عرض کیا کہ اے عمر !تمہاری دعا مجھ سے زیادہ کار گر ثابت ہو سکتی ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ میں تو دعا کرتا ہی رہتا ہوں البتہ آپ ؓکو حضور ﷺکی وصیت پوری کرنی چاہیے۔ چنانچہ حضرت اویس قرنی ؓنے حضور ﷺکا لباس مبارک کچھ فاصلے پر لے جا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی ،کہ یا رب! جب تک تو میری سفارش پر امت محمدی کی مغفرت نہ کر دے گا میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لباس ہر گز نہیں پہنوں گا۔ کیونکہ تیرے نبی ﷺنے اپنی امت کو میرے حوالے کیا ہے۔ چانچہ غیب سے آواز آئی کہ تیری سفارش پر کچھ افراد کی مغفرت کر دی۔ اسی طرح آپؓ دعا میں مشغول تھے کہ حضرت عمر و حضرت علی   رضی اللہ عنہما آپ ؓکے سامنے پہنچ گئے اور جب آپؓ نے سوال کیا کہ آپ دونوں حضرات کیوں آ گئے؟ میں تو جب تک پوری امت کی مغفرت نہ کروا لیتا اس وقت تک یہ لباس کبھی نہ پہنتا۔

مقام ولایت خلافت سے بہتر ہے:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپؓ کو ایسے کمبل کے لباس میں دیکھا جس کے نیچے تونگری کے ہزاروں عالم پوشیدہ تھے۔ یہ دیکھ کر آپ ؓکے قلب میں خلافت سے دستبرداری کی خواہش پیدا ہوئی اور فرمایا کہ کیا کوئی ایسا شخص ہے جو روٹی کے ٹکڑے کے بدلے میں مجھ سے خلافت خرید لے۔ یہ سن کر حضرت اویس ؓنے کہا کہ کوئی بے وقوف شخص ہی خرید سکتا ہے۔ آپؓ کو تو فروخت کرنے کی بجائے اٹھا کر پھینک دینا چاہیے پھر جس کا جی چاہے اٹھا لے گا۔ یہ کہہ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھیجا ہوا لباس پہن لیا اور فرمایا کہ میری سفارش پر بنو ربیعہ اور بنو مضر کی بھیڑوں کے بالوں کے برابر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی مغفرت فرما دی۔ اور جب حضرت عمرؓ نے آپ ؓسے حضور اکرم ﷺکی زیارت نہ کرنے کے متعلق سوال کیا تو آپؓ نے اُن سے پوچھا کہ اگر آپؓ دیدار نبیﷺ سے مشرف ہوئے ہیں تو بتائیے !کہ حضورﷺ کے ابرو کشادہ تھے یا گھنے(ملے ہوئے)؟ لیکن دونوں صحابہ جواب سے معذور رہے۔

اتباع نبوی میں دندان مبارک کا توڑنا:- 

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوستوں میں سے ہیں تو یہ بتائیے کہ جنگ احد میں حضور ﷺکا کون سا دانت مبارک شہید ہوا تھا؟ یہ کہہ کر اپنے تمام ٹوٹے ہوئے دانت دکھا کر کہا کہ جب دانت مبارک شہید ہوا تو میں نے اپنا ایک دانت توڑ ڈالا۔ پھر خیال آیا کہ شاید کوئی دوسرا دانت شہید ہوا ہو، اسی طرح ایک ایک کر کے جب تمام دانت توڑ ڈالے اس وقت مجھے سکون نصیب ہوا۔ یہ دیکھ کر دونوں صحابہ پر رقت طاری ہو گئی اور یہ اندازہ ہو گیا کہ پاس ادب کا حق یہی ہوتا ہے۔ گو حضرت اویس قرنی ؓدیدار نبیﷺ سے مشرف نہ ہو سکے لیکن اتباعِ رسالت کا مکمل حق ادا کر کے دنیا کو درس ادب دیتے ہوئے رخصت ہو گئے۔

مؤمن کے لیے ایمان کی سلامتی ضروری ہے:-

 جب حضرت عمر ؓنے اپنے لیے دعا کی درخواست کی تو آپ ؓنے کہا کہ نماز میں التحیات کے بعد میں یہ دعا کیا کرتا ہوں۔ اللٰھم اغفر للمؤمنین والمؤمنات ، اے اللہ تمام مؤمن مردوں عورتوں کو بخش دے اور اگر تم ایمان کےساتھ دنیا سے رخصت ہوئے تو تمہیں سرخروئی حاصل ہو گی۔ ورنہ میری دعا بے فائدہ ہو کر رہ جائے گی۔

وصیت:- 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب وصیت کرنے کے لیے فرمایا تو آپؓ نے کہا کہ اے عمر ! اگر تم خدا شناس ہو تو اس سے زیادہ افضل اور کوئی وصیت نہیں کہ تم خدا کےسوا کسی دوسرے کو نہ پہچانو، پھر پوچھا کہ اے عمر، کیا اللہ تعالیٰ تم کو پہچانتا ہے؟ آپؓ نے فرمایا ، ہاں۔ حضرت اویسؓ نے کہا کہ بس خدا کے علاوہ تمہیں کوئی نہ پہچانے یہی تمہارے لیے افضل ہے۔

استغناء:- 

حضرت عمرؓ نے خواہش کی کہ آپ ؓکچھ دیر اسی جگہ قیام فرمائیں میں آپ ؓکے لیے کچھ لے کر آتا ہوں تو آپؓ نے جیب سے دو درہم نکال کر دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ اونٹ چرانے کا معاوضہ ہے اور اگر آپؓ یہ ضمانت دیں کہ یہ درہم خرچ ہونے سے پہلے میری موت نہیں آئے گی تو یقیناً آپؓ کا جو جی چاہے عنایت فرما دیں ورنہ یہ دو درہم میرے لیے بہت کافی ہیں۔ پھر فرمایا کہ یہاں تک پہنچنے میں آپ حضرات کو جو تکلیف ہوئی اس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ اور اب آپ دونوں واپس ہو جائیں کیونکہ قیامت کا دن قریب ہے اور میں زاد ِآخرت کی فکر میں لگا ہوا ہوں۔ پھر ان دونوں صحابہ کی واپسی کے بعد جب لوگوں کے قلوب میں حضرت اویس ؓکی عظمت جاگزیں ہوئی اور مجمع لگنے لگا تو آپؓ گھبرا کر کوفہ میں سکونت پزیر ہو گئے اور وہاں پہنچنے کے بعد بھی صرف" ہرم بن حبان" کے علاوہ کسی دوسرے شخص نے نہیں دیکھا۔ 

(تذکرۃ الاولیاء، حضرت شیخ فریدالدین عطّار رحمۃ اللہ علیہ)

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی فضیلت :

عن عمر بن الخطاب أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال :

 " إن رجلا يأتيكم من اليمن يقال له : أويس لا يدع باليمن غير أم له قد كان به بياض فدعا الله فأذهبه إلا موضع الدينار أو الدرهم فمن لقيه منكم فليستغفر لكم "

وفي رواية قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " إن خير التابعين رجل يقال له : أويس وله والدة وكان به بياض فمروه فليستغفر لكم " . رواه مسلم

حضرت عمربن الخطاب سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص یمن سے تمہارے پاس آئے گا جس کا نام اویس ہوگا ، وہ یمن میں اپنی ماں کے سوا کسی کو نہیں چھوڑے گا ، اس کے بدن میں سفیدی (یعنی برص کی بیماری ) تھی ۔ اس نے اللہ سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بدن سے سفیدی کو ختم کردیا ہاں صرف ایک درہم یا ایک دینار کے بقدر سفیدی باقی رہ گئی ہے ۔ پس تم میں سے جو شخص اس (اویس ) سے ملے اس کو چاہئے کہ اس سے اپنے لئے مغفرت کی دعا کرائے ، ایک اور روایت میں یوں ہے کہ (حضرت عمر نے بیان کیا کہ ) میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ، تابعین میں بہتر شخص وہ ہم جس کا نام اویس ہے اس کی ایک ماں ہوگی اور اس کے بدن پر برص کا نشان ہے ، پس تم اس سے اپنے لئے دعا مغفرت کرانا ۔ " (مسلم) )

تشریح : 

وہ یمن میں اپنی ماں کے سوا " اِن الفاظ سے حضرت  محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ اہل وعیال میں سے صرف ایک ماں کے علاوہ اور کوئی یمن میں اس کا نہیں ہے اور اسی ماں کی خدمت وخبر گیری نے اس کو یمن سے چل کر یہاں میری زیارت وملاقات کے لئے آنے سے باز رکھا ہے ۔ اگر اس کو اپنی ماں کی تنہائی اور بے کسی کا فکر نہ ہوتا تو وہ ضرور میری خدمت میں حاضر ہوتا اور میری زیارت و صحبت کا شرف حاصل کرتا ۔

ایک درہم یا ایک دینار کے بقدر  یہاں راوی کو شک ہوا ہے کہ حضرت  محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درہم کے بقدر فرمایا تھا یا ایک دینار کے بقدر کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے ، بہرحال دعا کے نتیجہ میں برص کا ختم ہوجانا اور ایک درہم یا ایک دینار کے بقدر معمولی سا نشان باقی رہ جانا شاید قدرت کی اس مصلحت کے تحت ہوگا کہ اس مرض کی کچھ نہ کچھ علامت باقی رہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا بہشتی لباس سفیدی اور چمک میں ناخن کی طرح تھا جو کبھی میلا نہیں ہوتا تھا پھر دنیا میں آنے کے بعد ان میں بھی اور ان کی نسل میں بھی اسی لباس کا ذراسا نشان ناخن کی صورت میں باقی رہ گیا اور یا اللہ تعالیٰ نے ان کے جسم پر برص کا وہ تھوڑا سانشان اس مصلحت سے باقی رہنے دیا کہ وہ شرم کے مارے لوگوں میں خلط ملط رکھنے سے بازرہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت اویس قرنی ؓگوشہ نشینی اور گمنامی کو اختیار کئے ہوئے تھے ، لوگوں کے درمیان خلط ملط رکھنے اور شہرت کو سخت ناپسند کرتے تھے ۔ اور ایک روایت میں یہ آیا ہے کہ خود انہوں نے دعا کی تھی کہ پروردگار !میرے جسم پر اس مرض کا تھوڑا سا نشان باقی رکھئے !تاکہ کل میں تیری نعمت کو یاد رکھوں اور اس کا شکر ادا کرتا رہوں کہ تونے مجھے اس بُرے مرض سے نجات عطا فرمائی " تابعین میں سے بہترین شخص "

 حضرت اویسؓ کو حضرت  محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین تابعی اس اعتبار سے فرمایا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھے اور عذر شرعی نے ان کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے باز رکھا تھاظاہر ہے کہ ان الفاظ میں حضرت اویس ؓکی مدح وتعریف ہے نیز اس ارشاد رسالت سے معلوم ہوا کہ اہل خیر وصلاح سے دعائے مغفرت کی درخواست کرنی چاہئے اگرچہ درخواست کرنے والا ان اہل خیر وصلاح سے افضل ہو ۔

اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعریفی الفاظ حضرت اویس قرنیؓ کا دل خوش کرنے کے لئے ارشاد فرمائے تھے اور اس کا مقصد ان لوگوں کے واہمہ کا دفعیہ جو شاید یہ سمجھ بیٹھے کہ اویس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے اور شرف زیارت و صحبت حاصل کرنے سے قصدا اعراض کررہا ہے ۔ حالانکہ خدمت رسالت میں ان کے حاضر نہ ہونے کی وجہ ماں کی دل داری اور ماں کی خدمت وخبر گیری کا عذر شرعی تھا ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تابعین میں سب سے بہتر حضرت اویس قرنی ہیں جب کہ حضرت امام احمد بن حنبل سے منقول ہم کہ تابعین میں سب سے بہتر اور افضل سعید بن مسیب ہیں ، لیکن ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ حضرت سعید بن مسیب تو علوم دین اور احکام شرائع کی معرفت سب سے زیادہ رکھنے کے سبب تابعین میں افضل ہیں اور اللہ کے نزدیک ثواب کی کثرت کے اعتبار سے حضرت اویس قرنی ؓتابعین میں افضل ہیں اور قاموس میں جو یہ لکھا ہے کہ اویس قرنی سادات تابعین میں سے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ حدیث کے الفاظ بھی اسی معنی پر محمول ہیں ۔

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی شان میں جو اور آثار واخبار منقول ہیں اور جن کو سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے جمع الجوامع میں ذکر کیا ہم ، ان کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے ۔

اس سلسلہ میں ایک روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بھی منقول ہے ، انہوں نے بیان کیا کہ پہلے تو دس سال تک حضرت عمر فاروق نے اویس قرنی کے بارے میں کوئی تلاش وجستجو نہیں کی ، پھر انہوں نے ایک سال حج کے دوران اہل یمن کو آواز دے کر کہا کہ تم میں جو لوگ قبیلہ مراد سے تعلق رکھتے ہوں وہ کھڑے ہوجائیں چنانچہ قبیلہ مراد کے لوگ کھڑے ہوگئے اور باقی لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہے ، حضرت عمر نے ان (قبیلہ مراد کے لوگوں ) سے پوچھا ! کیا تم میں کوئی شخص اویس نام کا ہے ؟ یہ سن کر ایک شخص بولا کہ اے امیر المؤمنین !ہمیں نہیں معلوم آپ کس اویس کو پوچھ رہے ہیں ، ہاں میرا ایک بھتیجا ہے جس کو لوگ اویس اویس کہہ کر پکارتے ہیں اور وہ اس درجہ کا پست وبے حیثیت انسان ہے کہ آپ جیسی ہستی کو اس سے کیا سروکار ہوگا ۔ حضرت عمر نے پوچھا کیا وہ حدود حرم میں موجود ہے ؟ اس نے کہا ہاں ، میدان عرفات سے متصل اراک جھاڑیوں میں لوگوں کے اونٹ چرارہا ہے (گویا حضرت اویس اپنی شخصیت چھپانے کے لئے لوگوں کے اونٹ چرا رہے تھے تاکہ ایک چرواہے سے زیادہ کوئی اہمیت ان کو نہ دی جائے ) حضرت عمر نے یہ سنا تو حضرت علی کو اپنے ساتھ لیا اور دونوں ایک گدھے پر سوار ہو کر اراک کی طرف روانہ ہوگئے ، وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اویس کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں اور اپنی نظریں سجدہ گاہ پر گاڑے ہوئے ہیں ان کو اس حالت میں دیکھ کر حضرت عمر اور حضرت علی نے آپس میں کہا کہ جس شخص کی تلاش میں ہم لوگ ہیں ہونہ ہویہ وہی شخص ہے ، حضرت اویس کے کانوں میں جب ان دونوں کی آہٹ پڑی تو انہوں نے نماز کو مختصر کردیا اور فارغ ہو کر ان کی طرف متوجہ ہوئے ان دونوں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے دونوں کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا : علیکم السلام ورحمتہ اللہ ۔ پھر حضرت عمر اور حضرت علی مرتضیٰ نے پوچھا : برادرم ! تمہارا نام کیا ہے اللہ کی رحمت وسلامتی نازل ہوتم پر ! اویس بولے میں عبداللہ ہوں سیدنا علی المرتضیٰ نے کہا ، ہمیں معلوم ہے ، آسمانوں میں اور زمین پر جو بھی متنفس ہے ، وہ عبداللہ ہے ۔ میں تم کو پروردگار کعبہ اور پروردگار حرم کی قسم دے کر پوچھتا ہوں ، تمہارا وہ نام کیا ہے جو تمہاری ماں نے رکھا ہے ۔ حضرت اویس نے کہا تم لوگ مجھ سے آخر چاہتے کیا ہو ، میر انام اویس بن مراد ہے ۔ حضرت عمر اور حضرت علی نے کہا : ذرا اپنا بایاں پہلو کھول کر دکھاؤ ، حضرت اویس نے اپنا بایاں پہلو کھول دیا ، ان دونوں نے دیکھا کہ اس جگہ ایک درہم کے بقدر سفیدی کا نشان موجود ہے ۔ دونوں تیزی کے ساتھ اویس کی طرف لپکے تاکہ اس نشان کو بوسہ دیں اور بولے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام تمہیں پہنچائیں اور یہ کہ تم سے اپنے لئے دعاء مغفرت کی درخواست کریں ۔ حضرت اویس نے کہا : میں تو مشرق ومغرب کے ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے دعا گو ہوں ۔ ان دونوں نے فرمایا : ہم خاص طور پر اپنے لئے دعائے مغفرت کے طلب گار ہیں۔ چنانچہ حضرت اویس نے بالخصوص ان دونوں کے لئے اور بالعموم تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے دعائے مغفرت کی ، اس کے بعد حضرت عمر نے فرمایا میں اپنی جیب خاص سے یا (بیت المال کے ) اپنے عطیہ سے تمہیں کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں حضرت اویس بولے یہ پھٹے پرانے کپڑے میرے پاس ہیں میری دونوں پاپوشیں گانٹھ دی گئی ہیں ، چار درہم بھی میرے پاس ہیں جب یہ اثاثہ ختم ہوجائے گا تو آپ کا عطیہ قبول کر لوں گا اور انسان کی بات تو یہ ہے کہ جو کوئی ہفتہ بھر کے لئے آرزو کرتا ہے اس کی آرزو مہینہ بھر تک کے لئے دراز ہوجاتی ہے اور جو کوئی مہینہ بھر کے لئے آرزو کرتا ہے اس کی آرزو سال سال بھر تک کے لئے دراز ہوجاتی ہے (یعنی انسان اگر قناعت کا دامن چھوڑ دے تو پھر اس کی آرزوئیں اور حرصیں بڑھتی چلی جاتی ہیں ) اس کے بعد حضرت اویس نے اونٹوں کو ان کے مالکوں کے حوالے کیا اور خود وہاں سے ایسے روپوش ہوئے کہ پھر کبھی نہیں دیکھے گئے ۔

پیر زادہ خالد رضوی امروہوی

آپؓ کی فضیلت : 

روایت بیان کی جاتی ہے کہ روزِ قیامت کوئی حضرت اویس قرنی ؒکو نہیں دیکھ سکے گا، کیونکہ حضرت اویس قرنیؒ نے دنیا میں اس لئے چُھپ کر اللہ کی عبا دت کی کہ دنیا میں کوئی بندہ انہیں پہچان نہ لے، سو اللہ تعا لیٰ ستر ہزار فرشتے اویس قرنی ؒ کی شکل میں داخل ِبہشت فرمائے گا، تاکہ مخلوق انہیں نہ دیکھ پائے، سوائے اُس شخص کے جسے اللہ چاہے، اُسے آپ کی زیارت نصیب ہوگی۔حضرت اویس قرنی ؒکے بارے میں شیخ فرید الدین عطار ؒ روایت بیان کرتے ہیں، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ میں یمن کی طرف سے نسیم ِرحمت آتی ہوئی محسوس کر تا ہوں۔

ہمارے لئے حضرت اویس قرنی ؒکی زندگی مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے اورہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اپنی خواہش کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو، والدین کی خدمت میں رکاوٹ نہیں بننی چاہییے،ساتھ ہی عُشّاق رسول ﷺکو  حضرت اویس قرنی ؒ نے حضور اکرم ﷺ کی اطاعت و محبت اور ادب کی لا منتہامنز لوں سے آشناء کرایا ہے ،حضرت اویس قر نی ؒ جسمانی طور پر لاکھ دور صحیح، لیکن جو فضل و کرم حضور ﷺ کا آپ ؒ پر ہوا ،وہ یقیناً قابل ِرشک و ستائش ہے۔ اللہ تعا لیٰ ہمیں عشق رسول کا حقیقی شعور عطا فرمائے ۔

حضرت اویس قرنی ؒاور ماں کی خدمت :

حضرت اویس قرنی ؒکو اسلامی تاریخ میں ماں کی خدمت، اطاعت اور حُسنِ سلوک کے حوالے سے خاص شہرت حاصل ہے۔ ایک موقع پر ماں کے سوال کرنے پرکہ اویس، تم مدینے جاکر رسولِ اکرم ﷺ کی زیارت اور صحبت سے شرف یاب کیوں نہیں ہوتے؟حضرت اویس قرنیؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے ’’ماں‘‘ کے قدموں تلے جنت ہے۔‘‘ 

میں اس جنت کو کس طرح چھوڑ دوں؟ آخر کار والدہ کے بے حد اصرار پر یہ مدینۃ النبی ﷺ میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ ان دنوں مدینے میں موجود نہیں تھے،انہوں نے اس موقع پر اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر میرے اختیار میں ہو تو میں پوری زندگی مدینے میں رہوں اور آپ ﷺ کے دیدار اور صحبت سے شرف یاب ہوں،لیکن یہ میرے اختیار میں نہیں،میری ماں بوڑھی اور خدمت کی طلب گار ہیں۔ انہوں نے مجھے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے اور جلد واپس یمن آنے کی تاکید کی تھی۔ 

لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے یہ عاشقِ صادق اور آپ ﷺ کی زیارت کے طالب حضرت اویس قرنیؓ والدہ کے حکم پر فوراً یمن روانہ ہوگئے اور زندگی بھر ماں کی خدمت کرتے رہے،اسی بناء پر انہیں اسلامی تاریخ میں بلند اور منفرد مقام حاصل ہے۔

وصال:

حضرت اویس قرنیؓ والدہ کے انتقال کے بعد حجاز تشریف لے گئے‘ وہ 657ء (37 ہجری) کو جنگ صفین میں حضرت علیؓ کی طرف سے حضرت امیر معاویہؓ کے لشکر کے ساتھ جنگ میں بھی شریک ہوئے تھے۔

صفین آج کے عراق اور شام کی سرحد پر واقع ہے‘ آپؓ نے اس جنگ میں شہادت کا رتبہ پایا اور صفین سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر شام کے شہر رقہ میں مدفون ہوئے‘ آپؓ کے مزار پر ایک شاندار مسجد تعمیر ہوئی لیکن بدقسمتی سے داعش نے یہ مسجد اور یہ مزار 2013ء میں تباہ کر دیا تاہم قبر آج بھی موجود ہے‘ دنیا میں اویسیہ کے نام سے ایک روحانی سلسلہ بھی پایا جاتا ہے۔

اویسیہ سلسلے کے لوگ عشق کو مذہب کے دیگر شعائر پر فوقیت دیتے ہیں‘ صلالہ میں بھی حضرت اویس قرنیؓ کا مزار ہے لیکن یہ مزار حقیقی نہیں‘ قرن کے لوگوں نے آپ کے گھر (کٹیا) میں آپ ؓکا فرضی مزار بنا دیا تھا‘ گھر ختم ہو گیا لیکن مزار آج تک موجود ہے‘ قرن گائوں بھی ختم ہو چکا ہے‘ پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر اب درختوں‘ جھاڑیوں اور چھوٹے پودوں کے سوا کچھ نہیں‘ مزار بلند ہے اور وادی نیچے‘ آپ کو دور دور تک سبزہ دکھائی دیتا ہے۔

 

بلند مقام ومرتبے کی بناء پر اگرچہ امام شعرانی جیسے لوگوں نے بھی حضرت اویس قرنی کو اصحاب رسول میں شامل کیا ہے لیکن علماء نے امام شعرانی کے اس قول کورد کیاہے کیونکہ حقیقت میں جمہور کے مذہب کے مطابق حضرت اویس قرنی تابعی ہیں اور افضل التابعین مانے جاتے ہیں۔ ان کی فضیلت کی دیگر وجوہ کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ کے بارے میں رسول اللہ ﷺسے بڑی صراحت کے ساتھ فضائل اور کمالات منصوص ہیں جو دوسرے تابعین حضرات کے بارے میں بہت کم ہیں۔

اکثر مورخین نے حضرت اویس قرنی ؓکا بارگاہ رسالت میں حاضر ی نہ دینے کاسبب اپنی والدہ کی خدمت سے فرصت نہ ملنے کو قرار دیا ہے۔ امام مسلم نے صحیح مسلم میں ”فضائل اویس قرنی“ میں یہ حدیث نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اپنے اصحاب سے فرمایا ”بے شک ایک شخص تمہارے پاس یمن سے آئے گا، ان کانام اویس ہوگا، یمن میں صرف اسے ان کی ماں کی خدمت روکے ہوئے ہے“۔ مولانارومؒ نے بھی اپنی مثنوی میں اویس قرنی ؓکی والدہ کو ولیہ کہاہے اور لکھاہے کہ وہ اپنے بیٹے کوفرمایا کرتی تھیں کہ تیرے حق میں یہی بہتر ہے کہ میری خدمت میں اپنی زندگی گزار دے”۔

مثنوی ہی کے مطابق ”پیارے آقاﷺ نے ایک دن حضرت عائشہ ؓسے فرمایا کہ خدا کے خاص بندوں میں سے ایک شخص ہمارے گھر آئے گا، اگر میں اتفاقاً گھر پرحاضر نہ ہو تو تم اس نیک مہمان کی خوب خاطر تواضع کرنا، ان کو میرے آنے تک عزت کے ساتھ بٹھانا۔ لیکن اگر وہ میرا انتظار نہ کرسکے تو اُن کا حلیہ ضرور یاد رکھنا کیونکہ اُن کی زیارت کرنے اور حلیہ یاد رکھنے میں سعادت اُخروی ہے۔ چنانچہ ایک روز اویس قرنیؓ اتفاقاً خانہ رسول ﷺمیں وارد ہوئے، آقاﷺکے بارے میں پوچھا، حضرت عائشہ نے بتایا کہ آپﷺگھر پر موجود نہیں۔

یہ سن کر اویس قرنی ؓواپس ہوئے اور کہا کہ پیارے آقاﷺکو میرا سلام کہنا۔

آپﷺجب گھر تشریف لائے توحضرت عائشہ ؓنے اویس قرنی ؓکی تشریف آوری سے آپ ﷺکو آگاہ کرکے ان کا سلام بھی پہنچایا اور ان کا حلیہ بھی آپ ﷺکے سامنے بیان کیا۔

افضل کا مفضول سے دعا کروانا :

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  واضح رہے کہ اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیاء ورسل بشر و رسل ملائکہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سب سے ا فضل امیر المؤمنین ، خلیفۂ رسول اللہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ،  ان کے بعد امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، ان کے بعدامیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، ان کے بعد امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ،  ان کے بعدعشرۂ مبشرہ کے بقیہ صحابہ کرام ، ان کے بعد باقی اہل بدر ، ان کے بعد باقی اہل اُحد ، ان کے بعد باقی اہل بیعت رضوان ، پھر تمام صحابہ کرام رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ۔  ان کے بعد تابعین ، تبع تابعین ، ائمہ مجتہدین ، غوث ، قطب ، اَبدال ، چاہے وہ کتنا ہی بڑے سے بڑا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا ولی ہو ، کتنا ہی بڑے سے بڑا زاہد ہومگر ان کے مقام ومرتبے کو ہرگز نہیں پہنچ سکتا ۔ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو بعد صدیق اکبر افضل الصحابہ ہیں ، حضرت سیدنا اویس قرنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اپنے لیے دعا کروائی ۔  اس سے معلوم ہوا کہ افضل کا مفضول سے دعا کروانا جائز ہے ۔  مُفَسِّر شہِیر ، مُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں : ’’معلوم ہوا کہ افضل بھی مفضول صالح سے دعا کرائے ۔ حضرات صحابہ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ ) جناب اُویس ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) سے کہیں افضل ہیں ، مگر اِن حضرات کو جناب اویس ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) سے دعا کرانے کا حکم دیا گیا ۔ ایک بار حضور انور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) نے حضرت عمر ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) سے جب کہ وہ عمرہ کرنے مکہ معظمہ جارہے تھے فرمایا تھا کہ ’’مجھے اپنی دعا میں نہ بھولنا ۔  

سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ  کی دل جوئی : 

حضرت سیدنا اویس قرنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور نبی اکرم نورِمجسم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا زمانہ مبارک پایا تھا ، مگر اپنی والدہ کی خدمت کے باعث سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ملاقات نہ ہوسکی لیکن اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپؓ کے فضائل ومناقب کو بیان فرمایا ۔ اشعۃ اللمعات میں ہے : ’’بعض علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ بات حضرت  سیدنا اُویس قرنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا دل خوش کرنے کے لیے فرمائی اور ان لوگوں کا وہم دُورکیا جنہوں نے خیال کیا کہ سیدنا اُویس قرنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ُنے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحبت یعنی صحابیت کا شرف حاصل نہیں کیا اور وہ پیچھے رہ گئے حالانکہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی والدہ محترمہ کی خدمت اور ان کا خیال رکھنے کی بنا پر یہ سعادت حاصل نہ کرسکے تھے۔ 

مُفَسِّرشہِیر ، مُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں :  ’’بعض بزرگوں کو فرماتے سنا کہ بعض صحابہ نے حضرت اویس ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) سے کہا کہ ’’تم نے حضور انور کا زمانہ پایا مگر زیارت نہ کی ۔ ‘‘ بولے : ’’ کیا تم نے زیارت کی ہے ؟  ‘‘  فرمایا  : ’’ہاں ۔ ‘‘ کہا  : ’’بتاؤ  ! مجبوب ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کے سر ، داڑھی اور ریش بچی میں کتنے کتنے بال سفید تھے ؟  ‘‘  صحابہ نے کہا  : ’’ہم نے شمار نہیں کیے ۔   ‘‘  فرمایا  : ’’مجھ سے پوچھ لو !  میں نے گن لیے ہیں ، سر شریف میں چودہ بال سفید تھے داڑھی مبارک میں پانچ ریش بچی ( ہونٹ اور ٹھوڑی کے بیچ کے بال ) میں ایک۔ 

گو مَیَسَّر نہیں سَالِک کو حضورِ بَدَنی     روح حاضر ہے مگر مثل اُویس قرنی

جسم ہِندی ہے مرا جان ہے میری مَدَنی    یا خدا  دُور  کسی  طرح ہو بُعدِ  بَدَنی

 

حضرت علامہ محمد بن عبداللہ الخطیب التبریزی نے ''تذکرۂ اُویس قرنی ‘‘ کے ضمن میں یمن کی بابت بھی احادیث ذکر کی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اے اللہ! ہمارے شام اور ہمارے یمن میں برکتیں عطا فرما، صحابہ نے عرض کی کہ نجد کے بارے میں بھی دعا فرما لیجیے،آپ نے پھر فرمایا: اے اللہ! ہمارے شام اور ہمارے یمن میں برکتیں عطا فرما، صحابہ نے دوبارہ اور ایک روایت کی رو سے سہ بارہ نجد کے بارے میں متوجہ فرمایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: وہاں زلزلے آئیں گے، فتنے برپا ہوں گے اور قرنِ شیطان(یعنی شیطان کے حامی ومددگار) طلوع ہو گا، (بخاری:7094)‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے اہلِ یمن کے بارے میں یہ بھی فرمایا: ''تمہارے پاس اہلِ یمن آئیں گے ، وہ بڑے نرم دل ہیں، ایمان یمانی ہے اور حکمت یمانیہ ہے، (بخاری:4388)‘‘۔ نرم دلی رسول اللہ ﷺ کی پسندیدہ خصلت ہے، اللہ عزّوجلّ کا ارشاد ہے:''سو یہ رحمتِ باری تعالیٰ ہی کا فیضان ہے کہ (اے رسول!)آپ مسلمانوں کے لیے نرم دل ہیںاور اگر آپ تُند خو اور سخت دل ہوتے ، تو وہ ضرور آپ کے گردوپیش سے منتشر ہوجاتے،(آل عمران:159)‘‘۔ (۲):''اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے، جس کے مضامین ایک جیسے ہیں، اس کلام (کی جلالت سے) اُن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کے جسم اور ان کے دل اللہ کے ذکر کے لیے نرم ہوجاتے ہیں، (الزمر:23)‘‘۔ اس کے برعکس یہود کے بارے میں فرمایا:'' پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے، سو وہ پتھروں کی طرح بلکہ اُن سے بھی زیادہ سخت ہیں اور بے شک بعض پتھر پھٹ جاتے ہیں تواُن سے پانی نکل آتا ہے اور بے شک بعض پتھراللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں،(البقرہ:74)‘‘۔ قرآن کے اس ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ سنگ دل انسان کے دل سے ایمان اور ہدایت کے سَوتے نہیں پھوٹتے اور وہ قبولِ حق سے محروم رہتے ہیں۔

آج وہی اہلِ یمن جن کے لیے رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعائیں فرمائی تھیں اور ان کی نرم دلی کی تعریف فرمائی تھی، خاک وخون میں لتھڑے ہوئے ہیں، خانہ جنگی کا شکار ہیں، نیچے سے بھی اُن پر گولے برس رہے ہیں اور فضا سے بھی اُن پر بمباری ہورہی ہے، دعا کریں اِس حالتِ زار سے اللہ انہیں جلد نجات عطا فرمائے۔

آپؓ کا مزار مبارک :

بیروت۔27 مارچ ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) القاعدہ نواز شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) نے شامی شہر الرقہ میں حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا مزار اور اس سے ملحقہ مسجد عمار بن یاسر کو دھماکے سے اڑا دیا۔خیال رہے کہ حضرت اویس قرنیؓ کا مزار اور اس سے متصل جامع مسجد لبنان، عراق اور ایران سے آنے والے شیعہ زائرین کی ایک اہم زیارت گاہ سمجھے جاتے ہیں۔

جب سے الرقہ شہر پر ’داعش‘نے قبضہ جمایا ہے تب سے وہاں پر تنظیم نے اپنی مرضی کی حکومت قائم کررکھی ہے۔مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ’’ٹوئٹر‘‘ پر تباہ شدہ مزار اور متاثرہ جامع مسجد کو دکھایا گیا ہے، جس کے بیرونی حصے، دیواریں ملبے کا ڈھیر دکھائی دیتی ہیں۔ جامع مسجد کا سفید اور فیروزی رنگوں سے مزین مینار بھی زمین بوس ہو چکے ہیں۔ٹوئٹر پر تین تصاویر جاری کی گئی ہیں۔ ایک میں مسجد عمار بن یاسر کا بیرونی حصہ دکھایا گیا ہے۔ دوسری تصویر میں مزار اور مسجد کے تباہ ہونے والے بیرونی حصوں کا سڑک پر پڑا ملبہ اور تیسری میں مزار کا اندرونی حصہ جو بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے دکھایا گیا ہے۔دریں اثناء شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے بیان میں بتایا ہے کہ چہارشنبہ کو داعش نے مسجد اور حضرت اویس قرنی ؓ کے مزار کو اڑانے کیلئے دو الگ الگ بم دھماکے کئے۔

صوبہ الرقہ میں واقع پیغمبر اسلام حضرت  محمد ﷺکے محترم اصحاب جناب عمار یاسر ؓاور جناب اویس قرنیؓ کے روضہ مبارک کو مارٹر حملوں سے تباہ کرنے کے بعد انہیں ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ۔ ٹوئٹر پر تباہ شدہ مزار اور متاثرہ جامع مسجد عمار بن یاسر کو دکھایا گیا ہے ۔ تکفیری دہشت گردوں کی اس بھیانک کارروائی سے اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ ترکی میں بھی ایسے واقعات انجام دئے جاسکتے ہیں ۔ حضرت اویس قرنی کا روضہ مبارک دنیا بھر سے آنے والے زائرین کیلئے ایک اہم زیارت گاہ ہے ۔ جب سے شہر الرقہ پر شدت پسند تنظیم داعش نے قبضہ جمایا ہے تب سے یہاں پر اسی کی حکومت چل رہی ہے ۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال رمضان میں بھی دہشت گردوں نے اصحاب رسولؐ کے روضہ مبارک پر حملے کرکے دیواروں کو نقصان پہونچایا تھا ۔ شام میں انسانی حقوق کے ادارے نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے ۔ دریائے فرات کے دوسرے کنارے پر خلافت عثمانیہ کے ترک فرمان روا سلطان سلیمان کا مزار بھی خطرے میں ہے ۔ تاہم ترکی نے یہاں سخت انتظامات کئے ہیں ۔